محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میرے والد مرحوم پاک فوج میں ملازم تھے جنگوں کے واقعات بڑے شوق سے سنایا کرتے تھے انہی میں سے ایک واقعہ عبقری قارئین کے گوش گزار کررہا ہوں۔ 1965ء چونڈہ کی لڑائی میں جو بڑے افسران برسرپیکار تھے ان میں اس وقت میجر جنرل ٹکا خان اور کرنل ممتاز قابل ذکر ہیں۔ جنگ میں کامیابی کا انحصار بہت سی باتوں پر ہوتا ہے یہ ایک علیحدہ موضوع ہے دشمن 10 ستمبر سے سیالکوٹ سیکٹر میں فوجیں جمع کررہا تھا اس میں ان کا 6 آرمڈ ڈویژن مین حملے کی تیاری میں تھا کچھ اور بھی سائیڈوں پر حملے ہورہے تھے ان میں کئی ایک ڈمی حملے تھے۔ قصہ مختصر 17 ستمبر لڑائی کا رخ اس طرف ہوگیا جہاں ٹکا خان اپنے سیکٹر میں دشمن کا حملہ روکنے کیلئے تیار تھے ان کا ڈویژن انفنٹری اَور توپ خانہ پر مشتمل تھا۔ انہوں نے توپ خانہ اور ایٹنی ٹینک ہتھیاروں سے حملے کو روکنے کی کوشش کی لیکن دشمن کے متحرک یونٹوں کی وجہ سے زیادہ کامیابی نظر نہیں آرہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا دشمن ہمارے مورچوں کو روندتا ہوا اوپر سے گزر جائے گا۔ اس نازک صورتحال میں ٹکا خان فوراً فرنٹ لائن پر گئے اوراعلان کیا’’ میں ٹکا خان بول رہا ہوں جو جو بندہ میری آواز سن رہا ہے جلدی میرے پاس آجائے‘‘۔ شائد کوئی ڈیڑھ سو کے قریب افسر اور سپاہی ایک دم اکٹھے ہوگئے۔ مختصر اور جوش دلانے والی تقریر کے آخر میں کہا: آپ دیکھ رہے ہیں کیسی نازک صورت بنتی جارہی ہے آپ میں جو شادی شدہ ہیں وہ دائیں طرف ہوجائیں اور جو غیر شادی شدہ ہیں وہ بائیں طرف ہوجائیں‘‘۔ شادی شدہ گروپ کو واپس اپنے مورچوں میں بھیج دیا دوسرے گروپ کو کہا اپنی پیٹھ پر بم باندھ لیں پھر ان کو 5،5 کے گروپ میں تقسیم کیا اور دشمن کے ٹینکوں کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔ تمام فوجی جوانوں نے وطن کی محبت میں اپنی جان قربان کرنےکا عہد کیا اور اپنے بدن پر بم باندھ لیے۔ ٹکا خان صاحب نےاپنی تقریر ختم کی‘ چپکے سے اپنی یونیفارم تبدیل کی اور لائس نائیک کی وردی پہن لی۔ پیٹھ پر بم باندھا اور دشمن کے ٹینکوں کی طرف وہ بھی چل پڑے۔ تھوڑی دور ہی گئے ہوں گے ایک سپاہی نے شکل سے دیکھ کر ان کو پہچان لیا وہ زور سے بولا’’ ٹکا خان‘ ٹکا خان‘‘۔ 2،3 سپاہی دوڑتے ہوئے آئے انہوں نے اٹھا کر ٹکا خان کو میدان سےباہر کیا اس کے بعد کیا منظر دیکھنے میں آیا فوجی جوان تیر کی طرح دشمنوں کے ٹینکوں کی طرف بڑھ رہے تھے دشمن قریب نہیں آنے دے رہا تھا بہت سے شہید ہوگئے لیکن کئی جوان قریب پہنچ کر اپنے آپ کو ٹینک کی چین کے نیچے دینے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک عجیب بات جو دیکھنے میں آرہی تھی وہ یہ کہ مائن بم (جو شہیدوں نے پیٹھ پر باندھا ہوا تھا) اس سے صرف ٹینک کی چین ٹوٹ جاتی ہے اور ٹینک کھڑا ہوجاتا ہے لیکن جس کو بھی مائن بم لگاپورا ٹینک آگ کی لپیٹ میں تھا جیسے وہ گتے کا بنا ہوا ہو۔ یہ بس خدا تعالیٰ کی مدد تھی کہ ٹینک کا کرئیو (عملہ) بھی جل کر ختم ہورہا تھا۔ اس دن صحیح معنوں میں انسان آگ اور لوہے کے طوفان سے ٹکرایا۔ بڑھتا ہوا دشمن رک گیا بلکہ وہ دوبارہ منظم ہونے کیلئے پیچھے چلا گیا۔ ٹکا خان نے اتنا سخت حکم دیا لیکن خود بھی اس پر عمل کرکے دکھایا۔ فوج کی ہائی کمان میں ان کے اس عمل کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی لیکن آپ اندازہ کرسکتے ہیں ایک تاریخی مثال سے۔ جب جنگ یرموک‘ یرموک میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے دستے پیچھے ہٹنا شروع ہوئے تو عکرمہ بن ابو جہل نے مسلمانوں کو کہا کہ ’’ میرے ساتھ کون موت کی بیعت کرتا ہے تقریباً 400/500 سپاہیوں نے یہ بیعت کی اور پھر ایسا زور دار حملہ کیا کہ دونوں طرف کشتوں کے پشتے لگ گئے وہ سبھی لوگ شہید ہوگئے لیکن رومی لشکر کا ایک بڑا حصہ پیچھے ہٹتا چلا گیا اور گھیرے میں آکر مارا گیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں